جنون،محبوب اور محبت

 ایک دن "محبت جنون اور محبوب" کی ملاقات ہوئی۔"محبت" نے دعویٰ کیا کہ اسے ساری دنیا سے "محبوب" عزیز ہے۔ "عشق" جو کہ "جنون" تھا اس نے کہا اسے زیادہ چاہت ہے۔ اسی تکرار میں "محبوب" کو غصہ آیا اور تنگ ہو کر اپنے گھر کا دروازہ بند کر دیا۔ اب "محبت اور جنون" کا امتحان شروع ہو گیا ۔ دونوں نے دروازہ کھٹکانا شروع کر دیا۔

جب "محبوب" نے جواب نہ دیا تو بے تابی کے عالم میں "محبت اور جنون" دونوں اور تیزی سے دروازہ کھٹکانے لگے۔ لیکن محبوب کا کوئی جواب نہ آیا۔ گرمی کا موسم تھا۔ پھر اسی عالم میں سورج نے اپنا اثر دکھایا۔ اپنی تیز کرنوں سے "محبت اور جنون" کو تپش دی۔ دونوں پسینہ سے شرابور ہوگئے۔ اب شدید گرمی، سر پر کڑکڑاتا سورج، پیاس سے برا حال. اسی اثنا میں گلی میں آتے جاتے لوگ وجہ پریشانی پوچھیں کہ کوئی پاگل ہو؟ اگر دروازہ نہیں کھل رہا تو چھاؤں میں بیٹھ کر انتظار کریں یا واپس چلے جاؤ.
بعد میں آجانا ۔

اب چونکہ "محبت" کا ذرا نازک معاملہ تھا۔یہ گرمی سردی و موسم کی شدت برداشت نہیں کر سکی ، ساتھ ہی لوگوں کے کھٹے میٹھے جملے سن کر تھک ہار کر کچھ دیر چھاؤں تلے بیٹھی کافی انتظار کے بعد بھی مقصد میں کامیابی نہ ملنے پر واپس گھر چلی گئی۔
پر "جنون" جوکہ "عشق" تھا وہ دروازے سے پیچھے نہ ہٹا اور دستک دیتا رہا۔اسے موسم کی تپش کا جیسے احساس تک نہ ہو۔

اردگرد کی آ وازیں
دیوانہ است ،دیوانہ است
جیسے اس پر اثر ہی نہ کر رہی ہوں محبت سے جیت ہار کی فکر چھوڑ کر اس کی ساری توجہ صرف اور صرف اپنے محبوب کو راضی کرنے پر تھی کہ ہاۓ محبوب مجھ سے ناراض ہو گیا ۔گویا میری زندگی کی شمع جیسے بجھ سی گئ ہو ۔اسی دستک میں وقت صبح سے شام میں بدل گیا جنون نے ایک سیکنڈ کے لیے بھی اپنا ہاتھ دستک دینے سے نہ روکا۔

یہ صبح سے شام دراصل جنون کی زندگی کی ابتدا سے اختتام تھی۔
لیکن محبوب راضی نہ ہوا اچانک دستک بند ہوگئی "محبوب" کے دل میں وہم سا ہوا کبھی دل کرے دروازہ کھول دے کبھی دل کرے نہ کھول ۔کبھی دل کرے یہ جو مسلسل دستک تھی یہ محبت دے رہی تھی
پھر دل کرے نانا نا یہ جنون ہوگا۔
محبت اتنا نازک اتنا دیر دستک سی کہیں اس کے ہاتھوں سے خون ہی نہ رسنے لگا ہو ۔

اس سوچ سے محبت پر اعتبار آ یا دل میں تڑپ پیدا ہوئی ۔اپنی سنگ دلی پر غصہ آیا کہ پتہ نی اب محبت کا کیا حال ہو گا میں نے اتنا دیر دروازہ بند رکھا۔اسی سوچ میں بے تابی بڑھی محبوب سے اور برداشت نہ ہوا بھاگ کر دروازہ کھولا۔کیا دیکھا کہ محبوب حالت بے ہوشی میں محبوب کی چوکھٹ پر سر رکھے۔ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔محبوب جوکہ ساری باتیں محبت کے حق میں سوچ کر نکلا تھا اب آگے جنون کو اس حالت میں دیکھ کر اور اپنی ساری زندگی کے تجربے کو غلط پا کر اپنے آ پ پر صرف افسوس کے سوا اور کچھ نہ کر سکا ۔
محبوب نے بھاگ کر جنون کو گود میں لیا زاروقطار رونے لگا کہ
یہ تم تھے جو آخری سانس تک مجھے مناتے رہے میں کتنا بدبخت تھا جو سوچتا رہا کہ محبت ہی اپنا سب کچھ مجھ پر نچھاور کر سکتی کہ ہے۔یہ تم تھے جس نے مجھے منا لیا۔
یہ تم تھے جس نے مجھ پتھر کی آ نکھیں کھول دیں ۔جنون لب ہلائے بغیر بس مسکراتے ہوۓ محبوب کی آنکھوں میں دیکھتا رہا کہ آ خر محبوب کو یقین دلوادیا ۔مرنا تو ویسے بھی تھا چلو محبوب کی محبت پا لی اور یوں محبوب کے سامنے جنون دنیا سے پرسکون ہو کر رخصت ہو گیا۔

Comments