6000 ہزارگبر بمقابلہ 60 جرنیل صحابہ کرام


تاریخِ_اسلام کا وہ واقعہ جسے پڑھ کر آپ عش عش کر اُٹهیں گے.اسلام کے کفن بردوش مجاہدوں نے شجاعت و بہادری کی جو بے نظیر مثال قائم کی. وہم گمان سے ماورا ایسا عظیم کردار ادا کیا کہ خواب میں بهی ایسا کرنا نا ممکن ہے.

آئیے اپنے دل کی دھڑکنوں پر قابو رکهتے ہوئے ملاحظہ فرمائیں,

معرکہیرموک کے پہلے دن رومی جرنیل باہانارمنی کے اشتعال دلانے پر عرب نصرانی قبیلہ بنوغسان کے سردار جبلہبن_ایہم نے اپنے 60000 کے لشکر کے ساتھ مجاہدین اسلام کے لشکر کے ساتھ ٹکر لینے کا ارادہ کیا. 

 ادھر امینُاُمتحضرتابوعبیدہرضیﷲُ_عنہُ نے جو سپہ سالار تھے‘ صحابہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت خالد نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں ان ساٹھ ہزار کے مقابلے میں تیس آدمی لے کر جاؤں۔ جن میں سے ہر ایک دو ہزار پر حاوی ہو۔آج میں ان کو ایسا چکما دوں گا کہ ان ناک خاک آلود ہو جائے گی اور ذلت کی وجہ وہ کسی کو اپنا منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے  صحابہ نے کہا کیا آپ مذاق فرماتے ہیں؟ 

کہنے لگے خدا کی قسم مذاق نہیں کرتا۔ حضرتابوسفیان_رضیﷲعنہُ نے کہا کہ آپ ساٹھ ہزار کے مقابلے میں کم از کم ساٹھ تو لے کر جائیں چنانچہ آپ ساٹھ جلیل القدر جرنیل صحابہ کو اپنے ساتھ لے جانے پر راضی ہوئے اور نصرانی عربوں کے سامنے جاکر کھڑے ہوئے۔ 

جبلہ بن ایہم نے جب ان ساٹھ لوگوں کو دیکھا تو کہنے لگا۔ ہم لڑنے کی تیاری کرچکے ہیں اور تم ابھی تک صلح کے خواب دیکھ رہے ہو۔ ہم قیامت تک صلح نہیں کریں گے۔ 

حضرتخالدرضیﷲعنہُ نے تعجب سے پوچھا کہ کیا تم ہمیں قاصد تصور کرتے ہو حالانکہ ہم لڑنے آئے ہیں۔ جبلہ کہنے لگا اے نوجوان تو غرور میں اپنی قوم کو تباہی کی طرف لے کر نکلا ہے۔ آپ نے فرمایا تو ہمیں تھوڑا نہ جان ہم غرور میں نہیں بلکہ ﷲ پر بھروسہ کرکے نکلے ہیں۔ جبلہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا مسلمانوں نے مجھ کو بڑی سخت آزمائش میں ڈال دیا ہے اگر ہمارے ساٹھ ہزار کے لشکر نے ان ساٹھ مسلمانوں کو مار دیا تو دنیا کہے گی اس میں کون سی بہادری کا کام ہے. اگر وہ غالب آگئے تو قیامت تک ہماری نسلیں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گی. چنانچہ جبلہ نے اپنے ساتھیوں کو حملے کا حکم دے دیا۔ صحابہ نے بھی ثابت قدمی سے لڑنا شروع کردیا۔  حضرت ابو عبیدہ اور تمام لشکر اسلام کیمپ سے تاریخ کا اچھوتا معرکہ بڑی بیقراری سے دیکھ رہے تھے. دونوں طرف سے بہادروں کی چیخ و پکار اور تلواروں کی جھنکار کے علاوہ کوئی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ جنگ کے شعلے بلند تھے۔ صحابہ تکبیر کی آوازیں بلند کررہے تھے۔ حضرت خالد رضی ﷲ عنہ نے صحابہ سے فرمایا کہ آج اسی میدان کو میدان حشر سمجھو اور کفار کو سبق سکھاؤ۔ صحابہ کفار کے اندر گھرے ہونے کے باوجود بڑھ بڑھ کر حملے کرتے رہے۔ نصرانی لشکر کے سپاہی ٹپاٹپ مقتول ہو کر زمین پر گرتے تھے. جبلہ بن ایہم حواس باختہ ہو گیا اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ سب ہو کیا رہا ہے بد حواسی کے عالم میں چیخ چیخ کر اپنے سپاہیوں کو حملے میں شدت کرنے کا حکم دیتا. لیکن اسلامی لشکر کے شیروں نے ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح چیڑ پھاڑ کر رکھ دیا شام تک صحابہ ایسے لڑتے رہے جیسے بالکل تازہ دم ہوں اور ابھی ابھی لڑائی شروع کی ہو۔

آج ﷲ کی تلوار حضرتِ خالد نے اپنا جوہر دیکھایا. حضرت خالد بن ولید. زبیر بن عوام. عبدالرحٰمن بن ابی بکر. فضل بن عباس. عبدﷲ بن عمر فاروق. ضرار بن الازور اور دوسرے صحابہ جس طرف بھی جاتے صفوں کی صفیں اُلٹ دیتے.

آخر کار عرب متنصرہ لشکر دفعتہً پیٹھ دکھا کر بھاگا. جبلہ بن ایہم کے لشکر کے سپاہی اس طرح ڈر کر بھاگتے تھے کہ گویا آسمان سے کسی نے ان کو ڈرا کر بھگادیا ہو. بھاگنے والوں میں جبل ہبن ایہم سب سے آگے تھا.

کفار کو شکست فاش ہوگئی اور صحابہ کرام واپس آگئے۔ واپس آنے والے صحابہ بیس تھے۔ ایک مرتبہ پھر پریشانی بڑھ گئی کہ شاید چالیس صحابہ شہیدہوگئے مگر میدان جنگ میں جاکر دیکھا گیا تو صرف دس لاشیں ملیں صحابہ نے کہا کہ ضرور تیس لوگوں کو کفار گرفتار کرکے لے گئے ہیں۔ صحابہ نے کفار کا پیچھا کیا تو مزید پچیس صحابہ مل گئے جو کفار کی شکست کے بعد ان کا پیچھا کرتے ہوئے آگے نکل گئے تھے۔ 

اس جنگ میں دس صحابہ شہید ہوئے جبکہ پانچ گرفتار ہوئے۔ جبکہ نصرانی عربوں کے پانچ ہزار آدمی مارے گئے۔ 

یہ تھی صحابہ کرام کی بہادری و شجاعت کی داستان. صحابہ کرام کوئ مافوق الفطرت لوگ نہیں تھے بلکہ عشقِ رسولﷺ کی طاقت و برکت سے ہر وقت تازہ دم رہتے تھے. ساری دنیا کے لوگ ملکر بھی کوشش کریں تو بھی ایسی مثال نہیں لا سکتے

Comments