جزیرہ جو ملک بدلتا رہتا ہے




لیکن اس کے چھ ماہ بعد سپین رضاکارانہ طور پر اس علاقے کو فرانس کو لوٹا دے گا۔

بی بی سی کے نامہ نگار کرس بوکمین کے مطابق یہ سلسلہ گذشتہ ساڑھے تین سو سال سے جاری ہے۔

دریا کے بیچ میں واقع فیزاں نامی یہ پرامن جزیرہ درختوں سے ڈھکا ہوا ہے۔ یہاں کوئی نہیں رہتا البتہ یہاں ایک قدیم یادگار قائم ہے جو 1659 میں ہونے والے ایک واقعے کی یاد دلاتی ہے۔

فرانس اور سپین کے درمیان طویل جنگ زوروں پر تھی۔ اس دوران فیزاں جزیرے کو غیرجانب دار علاقہ تصور کیا گیا اور دونوں سرحدوں کی طرف سے شہتیروں کے پل بنائے گئے۔ مذاکراتی ٹیمیں پہنچ گئی اور اس جزیرے میں امن مذاکرات شروع ہوئے جو تین ماہ تک چلتے رہے۔

اس دوران دونوں طرف فوجیں تیار کھڑی تھیں۔

انجام کار امن معاہدہ طے پایا۔ علاقے تقسیم ہوئے اور سرحدوں کا نئے سرے سے تعین کیا گیا۔ معاہدے کی سیاہی پکی کرنے کے لیے فرانس کے بادشاہ لوئی چاردہم نے ہسپانوی شہنشاہ فلپ چہارم کی بیٹی سے شادی کر لی۔

معاہدے میں ایک شق یہ بھی شامل تھی کہ یہ جزیرہ دونوں ملکوں میں برابر تقسیم کیا جائے گا۔ اس کا علاقہ نہیں، بلکہ اقتدار تقسیم ہو گا، یعنی چھ ماہ تک ایک ملک کے پاس رہے گا اور بقیہ چھ ماہ دوسرے کے پاس۔

ویسے تو اس کا انتظام و انصرام فرانسیسی اور ہسپانوی نیول کمانڈروں کے ذمے ہے، لیکن درحقیقت قریبی قصبوں ارون اور ہینڈائی کے میئر ہی اس کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔

ہینڈائی قصبے کے پارک ڈویژن کے نگران بیوئی نے مجھے بتایا کہ وہ ہر سال کشتی کے ذریعے ایک ٹیم بھیجتے ہیں جو یہاں گھاس کاٹتی ہے اور درختوں کی شاخ تراشی کرتی ہے۔

 


،ت،تصویر کا کیپشن

لوئی چہاردہم اور فلپ چہارم کے درمیان 1660 میں اسی جزیرے پر ملاقات ہوئی تھی

کبھی کبھار یہاں عوام کو آنے کی اجازت ملتی ہے لیکن بینوئی کہتے ہیں کہ صرف معمر لوگ ہی اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور نوجوانوں کو اس کی تاریخی اہمیت کا کچھ پتہ نہیں۔

جزیرہ ننھا منا ہے۔ اس کی لمبائی دو سو میٹر اور چوڑائی صرف 40 میٹر ہے۔ اور یہ رقبہ بھی رفتہ رفتہ گھٹتا جا رہا ہے کیوں کہ دریا جزیرے کو کاٹ رہا ہے۔ گذشتہ صدیوں میں جزیرے کا رقبہ نصف ہو کر رہ گیا ہے، لیکن دونوں حکومتوں کو اسے بچانے کے پشتے تعمیر کرنے کے لیے پیسے خرچ کرنے میں دلچسپی نہیں ہے۔

جزیرے پر کوئی جھنڈا نصب نہیں کیا جاتا۔ ایک خیال تھا کہ جن چھ ماہ میں یہ جزیرہ جس ملک کے پاس ہے اس کا پرچم وہاں لہرایا جائے، لیکن میئر نے مجھے کہا کہ اس سے باسک علیحدگی پسندوں کو شہہ ملے گی کہ وہ اس جھنڈے کو اتار کر وہاں اپنا جھنڈا لگا دیں۔

اگلے چند دنوں میں دنیا کا سب سے غیر متنازع جزیرہ اپنا ملک تبدیل کر لے گا۔ اس کے بعد اگست میں یہ دوبارہ فرانس کے قبضے میں آ جائے گا، بشرطیکہ سپین ساڑھے تین سو سالہ معاہدے سے روگردانی پر نہ اتر آئے!

 

Comments